اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد

Pages

نیو ایئر نائٹ ایک خباثت۔۔۔


(تحریر :: حکیم قاضی ایم اے خالد)
فرنگی تہذیب کے سحر سے ہم آج تک نہیں نکل پائے'یہ اعتراف کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ آج کی نسل کاطرز معاشر ت یعنی زندگی گزارنے کاسٹائل'مغرب کی اندھی تقلید کاہی نتیجہ ہے ۔کسی بھی نوجوان سے آپ اسلامی مہینوں کے یاکم ازکم حرمت والے مہینوں کے بارے میں پوچھیں توبتانہیں پائے گا بلکہ اسے تویہ علم بھی نہیں کہ اسلامی سال کاآغاز کس مہینے سے ہوتاہے۔ اس کے برعکس دسمبرکے آغاز سے ہی نیوائیرمنانے کی تقریبات خصوصا نیوائیر نائٹ کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔شراب کا سٹاک کرلیا جاتا ہے ۔بازارحسن کی تتلیاں بک ہوجاتی ہیں۔ہوٹلوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی رات بارہ بجے یکم جنوری کااعلان ہوتا ہے'ہرطرف طوفانِ بدتمیزی مچ جاتاہے۔ہم چونکہ مغرب سے مرعوب ہیںاورڈیڑھ سوسالہ غلامی کے جراثیم ابھی تک موجودہیںاس لئے آقاؤں کی پیروی میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنی عزت وتوقیرسمجھتے ہیں۔کسی تہذیب کے تہوار کومنانے کامطلب یہ ہوتاہے کہ ہمیں اس تہذیب اوراس کے بانی سے محبت ہے۔غلامی نے ہماری قوم کی ذہنی اورفکری صلاحیتیں اتنی پست کردی ہیں کہ ہم کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ نئے عیسوی سال کے استقبال کا یہ تہوار ان لوگوں کا تہوار ہے جنہوں نے رسول اللہۖکے خاکے اورکارٹون چھاپ کرآپ ۖکی توہین کاارتکاب کیا۔
  برطانیہ' فرانس ' اور جرمنی سمیت تمام عیسائی ممالک تونیوائیر نائٹ منانے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہی تھے لیکن اب اس نائٹ کی خرافات نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو بھی اپنی لپیٹ میںلے لیا ہے ۔ امریکہ میں نیو یارک سنٹر ' لندن میں ٹرائی فالگر سکوائر اور جرمنی کی دارالحکومت برلن برائڈن برگ گیٹ میں نیو ایئر کی بڑی بڑی تقریبات ہوتی ہیں۔ نیویارک کی تقریب میں ایک لاکھ کے قریب جوان شرکت کرتے ہیں ۔ ٹرائی فالگر سکوائر میں ساٹھ ہزار افراد جمع ہوتے ہیں جب کہ برلن برائیڈن گیٹ پر دنیا کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہوتی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس میں تقریبا پندرہ لاکھ جوڑے شرکت کرتے ہیں ۔31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب تمام روشنیاں گل کردی جاتی ہیں' آتش بازی ہوتی ہے۔ اور اس کے بعدشراب کے نشے میں دھت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رقص کرتی ہیں ۔ یہ تقریبات دنیا بھر کے ٹی وی چینلز دکھاتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ تمام ممالک کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور فحاشی اور عریانی کے مارے لوگ اپنے گھروں میں ان تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق نیو ائیر نائٹ پر صرف امریکہ میں171ارب ڈالر کی شراب پی جاتی ہے ۔ 600ملین کی آتش بازی کی جاتی ہے اور نوجوان اربوں ڈالر رقص گاہو ں میں اڑا دیتے ہیں ۔
 نیو ایئر نائٹ کا آغاز
نیو ایئرنائٹ کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے شروع میں ہوا ۔ برطانیہ کی رائل نیوی کے نوجوانوں کی زندگی کا زیادہ حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا ' یہ لوگ سمندروں کے تھکا دینے والے سفر وں سے بیزار ہوجاتے تو جہازوں کے اندر ہی اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرلیتے ۔ یہ لوگ رنگا رنگ تقریبات مناتے ' شراب پیتے 'رقص کرتے اور گرپڑ کر سوجاتے ' اگلے دن جب ان کی آنکھ کھلتی تو سمندراپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ بچھا ہوتا ۔ یہ لوگ تقریبات مناتے ' لیکن سال لمبا اور تقریبات مختصر ۔ چناں چہ یہ لوگ تقریب کا بہانہ تلاش کرتے ' ایک دوسرے کی سالگرہ مناتے ایک دوسرے کی بیوی بچوں کی سالگرہیں مناتے ' ویک اینڈ مناتے' ایسٹر اور کرسمس کا اہتمام کرتے ' جب یہ سارے مواقع بھی ختم ہوجاتے تو ایک دوسرے کے کتوں 'بلیوں اور گھروں کی سالگرہیں منانے لگتے ' انہی تقریبات کے دوران کسی  نے کہا کیوں نہ ہم سب مل کر نئے سال کو خوش آمدید کہا کریں' یہ آئیڈیا انہیں اچھا لگا ۔ لہذا اس سال31دسمبر کو جہاز کا سارا عملہ اکٹھا ہوا انھوں نے جہاز کے ہال روم کو سجایا ' موسیقی اور شراب کا اہتمام کیا رات دس بجے سب نے خوب شراب پی کررقص کیا اور ٹھیک بارہ بجکر ایک منٹ پر ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دی اور ایک دوسرے کو اپنے ہاتھ سے ایک ایک جام پیش کیا یہ نیو ایئر نائٹ کا باقاعدہ آغاز تھا ۔ اگلے سال ستمبر اور اکتوبر ہی میں نیو ایئر نائٹ کا انتظار شروع ہوگیا ۔ دسمبر آیا تو جونیئر افسروں نے اپنے سینئر افسروں کو درخواست دی ہم ایک طویل عرصے سے اپنے گھروں سے دور ہیں ۔ سمندر کی بوریت ہمیں خود کشی پر ابھار رہی ہے ہم نیو ایئر نائٹ منانا چاہ رہے ہیں اور ہمیں رقص کے لیے خواتین ساتھی درکار ہیں مہربانی فرماکر ہمیں صرف ایک رات کے لیے ساحل سے خواتین لانے کی اجازت دی جائے ۔
افسر اپنے ماتحتوں کی ضرورت سے واقف تھے ۔ چناں چہ انھوں نے اجازت دے دی ۔ اس رات قریب ترین ساحل سے فاحشہ عورتوں کا بندوبست کردیا گیا ۔ یہ نیو ایئر نائٹ دوسری راتوں سے بے پناہ اچھی تھی کیوں اس میں شراب کے ساتھ شباب بھی میسر تھا تیسرے سال اس تقریب میں بتیاں بجھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک سپاہی نے جہاز کے الیکٹرک سسٹم کے رکھوالے کو چند پاؤنڈ دیے ۔ اور اس سے کہا کہ جوں ہی رات کے بارہ بجیں چند سیکنڈ کے لیے بتیاں گل کردینا ۔ رکھوالے نے اس کی بات پر عمل کیا ۔ جوں ہی رات کے بارہ بجے روشنیاں بجھ گئیں فلور پر موجود تمام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں پھر اچانک روشنیاں جلیں اور روشنیاں گل کرنے والے آفیسر نے مائیک پر تمام لوگوں کو ہیپی نیو ایئر Happy new yearکہا تمام افسروں اور ماتحتوں نے تالیاں بجا کر اس کا شکریہ ادا کیا ۔ اگلے سال تمام لوگ روشنیاں گل ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ جوں ہی روشنیاں گل ہوئیں تمام لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور ۔۔۔۔بے حیائی کے اس تہوار کی تکمیل ہوگئی۔
نیو ایئر نائٹ کا دنیا بھر میں پھیلاؤ
برٹش رائل نیوی British Royal Neavyکے اس جہاز سے نیوایئر نائٹ دوسرے جہازوں تک پہنچی اور پھر وہاں سے ساحل پر اینا ڈین شہر تھا جس کے ساحل پر 1910ء میں پہلی نیو ایئر نائٹ منائی گئی ۔ رائل نیوی کے افسروں نے اعلی عہدے داروں سے چند گھنٹے ساحل پر گزارنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت دے دی گئی ۔ نیوی کے نوجوانوں نے اپنی بیگمات' منگیتروں اور گرل فرینڈز کو اسکاٹ لینڈ کی اس غیر معروف ساحل پر جمع ہونے کی دعوت دی ۔ 31دسمبر کی رات جب نیوی کا جہاز وہاں رکا تو درجنوں مرد اور عورتیں نیوی کے افسروں کی منتظر تھیں ۔ ان لوگوں نے انہیں پھول پیش کیے ' موسیقی کااہتمام کیا ' شراب پلائی' اور پھر ان لوگوں نے مل کر رقص کیا ۔ آخر میں نئے سال کا ظہور ہوا تو ان لوگوں نے بے حیائی کا نیا باب کھول دیا۔
اگلے سال ساحل پر خیمے لگ چکے تھے ' عارضی ہوٹل قائم ہوچکے تھے ' موسیقی اور شراب کا وسیع انتظام تھا اور ان افسروں اور ماتحتوں کے دل بہلانے کے لیے سینکڑوں فاحشہ عورتیں موجود تھیں ۔ یہ نیو ایئر نائٹ زیادہ کھلی ڈھلی اور بے حجاب تھی اسکے بعد برٹش نیوی میں یہ رواج ہوگیا۔ نیوی کے جہاز نیو ایئر نائٹ پر کسی قریب ترین ساحل پر رکتے ' نائٹ مناتے اور سفر پر روانہ ہوجاتے ۔ یہ روایت جنگ اول عظیم کے دوران بھی جاری رہی ۔ جنگ ختم ہوئی تو نیوی کے یہ افسر اپنے سامان میں نیو ایئر نائٹ بھی باندھ کر گھر لے گئے ان نوجوانوں ' افسروںاور اہلکاروں کے ساتھ فحاشی اور بے حیائی کا یہ سامان شہروں میں منتقل ہوگیا ۔ اور دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ اس وقت دنیا کے 192ممالک میں نیو ایئر نائٹ منائی جاتی ہے ' دنیا کے سات ہزارسے زائد بڑے شہروں میں فحاشی اور عریانی سے بھر پور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ۔
 نیو ایئر نائٹ اور پاکستان
1980ء تک نیو ایئر نائٹ کی تقریبات یورپ تک محدود تھیں لیکن 1980ء کی دہائی میں اس مرض نے آگے پھیلنا شروع کردیا ۔ یہ مشرق بعید آیا اور پھر یہ بر صغیر میں بھی جڑیں پکڑنے لگا ۔ 1992ء میں کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پہلی نیو ایئر نائٹ منائی گئی ۔ اس تقریب میں کراچی کے تاجروں ' زمین داروں اوراداکاروں نے شرکت کی۔ کڑے پہرے میں یہ تقریب منائی گئی جس میں شراب اور رقص کا خصوصی انتظام تھا ۔ پہلے تو نیو ایئر نائٹ کے نام سے اونچے طبقے کے لوگوں میں یہ رواج تھا کہ ان کی راتیں آباد ہوتی رہتی تھیں ۔ ان کے ہاتھوں عصمتوں کے تاج بکھرتے تھے اور ان کے پہلو گرمی سے معمورہوتے تھے بڑے بڑے خاندانوں میں اداکارائیں اور رقاصائیں اپنے جسم کی نمائش کے لیے منڈی کا مال بنتی تھیں لیکن اب متوسط اور چھوٹے طبقے میں بھی یہ فریضہ انجام دیا جانے لگا ہے۔ الغرض نیو ایئر نائٹ پر رنگ برنگی محفلیں ہوتی ہیں جام سے جام ٹکراتے ہیں ' بڑے بڑے ہوٹلوں' پلازوںاور امرا کے عشرت کدوں میں ناچ گانے اور عیاشی کے پروگرام رات گئے تک جاری رہتے ہیں ۔ پاکستان میں نیو ایئر نائٹ کو'' روشن خیالی ''یعنی سیاہ ترین مشرف دور میںعروج حاصل ہوا اور موجودہ دورمیں بھی مشرف کی دیگر پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ ساتھ ایسی خرافات کوبھی(بیک ڈور) سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ اور اس سلسلے میں جان بوجھ کر ''انجان''بنا جا رہاہے۔
 تادم تحریرہمعصر صحافی حامد جاوید کی خصوصی رپورٹ کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ31 دسمبرکو نیو ایئر نائٹ منانے کیلئے صوبائی دارالحکومت لاہور میں تیاریاں زور و شور سے شروع ہوچکی ہیںماڈرن فیملیوں کے نوجوان طبقے نے ایک دوسرے کو دعوتیں دینی شروع کر دیں ہیںجبکہ ہوٹلوں میں پرمٹوں پر ملنے والی شراب بھی نایاب اورمہنگی ہوگئی ہے جبکہ ڈیفنس 'گلبرگ'ماڈل ٹاؤن'فیصل ٹاؤن'جوہر ٹاؤن سمیت پوش ایریازمیں رہائشی بنگلوںمیں نیوائیر نائٹ منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں جہاں شراب و کباب کے ساتھ ڈانسزیعنی شباب کی سہولت بھی میسر ہوگی ۔بعض محفلوں میں ''سنگل''کوپارٹی میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی اس کیلئے جوڑوں کو دعوت دی گئی ہے دعوتی کارڈز پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ پارٹی میں شرکت کیلئے جوڑا ہونا لازمی ہے میاں بیوی ہوں یا فرینڈزہوںبعض جگہوں پر نیوائیر خصوصی کھانوں اور خصوصی ''ڈرنکس ''کا بھی اہتمام ہے۔پوش ایریاکی بعض کلبوںمیں 2500سے 3000روپے ٹکٹ فی جوڑا انٹری فیس رکھی گئی ہے ۔جہاں پر اعلیٰ قسم کا ڈنر مع ڈانس ہو گا۔مختلف مغرب زدہ تنظیموں اور امراء نے اپنی خفیہ محفلیں سجانے کے لیے کئی اہم اور غیر اہم ہوٹلوں میں کمرے بک کروا لئے ہیں۔ جن میں رات بھر محفلیں جاری رہیں گی۔فائیو سٹار ہوٹلوں میں نیوائیرنائٹ منانے کا کچھ اور ہی انداز ہے اس سلسلے میں تمام ہوٹلوں میں مخصوص تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں ۔ادھر منچلوں نے نیو ائیر نائٹ منانے کیلئے شاہراہ قائداعظم 'ٹھنڈی سڑک جو اس دفعہ واقعی انتہائی ٹھنڈی ہوگی'پر حسب معمول ہلہ گلہ کرنے کی تیاری کر لی ہے ۔ریگل چوک سے لے کر فورٹریس سٹیڈیم تک موٹرسائیکلوں'کاروںاور دیگرگاڑیوں میں منچلے جوان اور ادھیڑ عمر افراداس میں شامل ہوں گے۔جو شدید سردی میں فرنگی رسم ادا کریں گے ۔ضلعی انتظامیہ کے مطابق عورتوں کوتنگ کرنے یا بدتمیزی کرنے سے روکنے کیلئے خصوصی فورس تیار کر لی ہے جو رات دس بجے سے ایک بجے تک مال روڈ پر گشت کرے گی ۔یہ احوال تو صرف لاہور شہر کا ہے جبکہ ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں معاملات اس سے مختلف نہیں۔
 نیوائیرنائٹ پر ہمارے نوجوان موٹرسائیکلوں کے سیلنسر نکلوا کر ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پراودھم مچاتے ہیں۔کئی نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوئے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ان کی موت کاسانحہ والدین پربجلی بن کر گرتاہے اوروہ اپنے بڑھاپے کاسہارا چھن جانے کے بعدباقی عمراپنے لخت جگرکی جدائی کے غم میں روکر گزارتے ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ نسل نوکو قرآن وسنت کی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے۔ان کی فکرکواسلامی اقدارکے مطابق کیاجائے تاکہ وہ مستقبل میں بہترین مسلمان اوربہترین شہری بن سکیں۔
نیو ائیر نائٹ کی یہ رسم ایجاد کرنے والے اہل مغرب نے در اصل اپنی لامذہبیت کے حساب سے تفریح کا ایک موقع تلاش کیا ' جب کہ ان کا مذہب بھی خواہ یہودیت ہو یا نصرانیت ایسی واہیات اور بے ہودہ رسم کی اجازت کبھی نہیں دے سکتا جس میں عصمتیں لٹیں ' جوانیاں برباد ہوں' غل غپاڑے کے ساتھ ساتھ ناچ رنگ اور جام وسبو چھلکے ' اور کھلے بندوں اللہ کی حدود پھلانگ کر خالق کی نافرمانی میں مخلوق اس قدر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرنے لگے ۔ اہل پاکستان پر بھی کچھ عرصہ سے نیو ایئر نائٹ کا عذاب آیا ہوا ہے جس کی تقریبات کا انعقاد کرنے والے اور فائرنگ وناچ رنگ سے اس رات کو ہنگامہ بپا کرنے والے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں اس طرح وہ خود تو مبتلائے عذاب ہوتے ہی ہیں ' دوسروں کاسکون بھی برباد کرتے ہیں ۔ اللہ ہمیں اور ہماری قوم کو ہدایت نصیب فرمائے۔(آمین ثم آمین)###
٭…٭…٭
مصادر و ماخذ:۔
اخبار وجرائد
نیاسال عیسوی یا ہجری:ازمریم''ہیپی نیو ائیر :ازمحمد عارف جاوید'سازشیں بے نقاب: از یاسر محمد خاں

نیو ایئر نائٹ کے حادثات

نیو ایئر نائٹ کا ایک پہلواس موقع پر ہونے والے حادثات بھی ہیں۔ ہر سال دنیا بھر میں نیو ایئر نائٹ پر بے شمار ہونے والے حادثات میں ہزاروں لوگ متاثرہوتے ہیں۔
٭… برازیل کے شہر روڈی جنیرو میں ایک بدنام زمانہ ساحل ہے جس کا نام کوپاکابانا ہے (Copaca bana) یہ ساحل ساڑھے چار کلو میٹر طویل ہے ۔ اس ساحل پر2002ء میں پندرہ لاکھ جمع ہوئے ۔ رات بارہ بجے جب روشنیاں بجھیں اور آتش بازی شروع ہوئی تو وہاں ہلڑ مچ گیا ۔ اس ہنگامے میںکئی سو نوجوان سمندر میں گرگئے ' سینکڑوں لڑکیوں کی عصمت دری ہوئی اور بے شمار افراد پیروں میں کچلے گئے ۔ دوسرے دن ساحل پر انسانی اعضا' خون اور پھٹے پرانے کپڑے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
٭…یکم جنوری 2005ء میں ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس کے ایک نائٹ کلب میں نئے سال کی خوشی میں موسیقی کے ایک پروگرام کے دوران آتش بازی کے نتیجے میں آگ لگنے کی وجہ سے کم از کم300افراد جل کر ہلاک اور 500سے زائد شدید زخمی ہوگئے ۔ اس واقعہ کے دوران کلب کے ہال میں 1500افراد موجود تھے ۔
٭…کولمبیا کے سب سے بڑے شہر بگوٹا میں2002 میں صرف ایک گھنٹے کے اندر 147مارے گئے ۔ یہ تمام لوگ نوجوان تھے جنھوں نے رات کو نیو ایئر نائٹ کا اعلان ہوتے ہی ایک دوسرے پر حملہ کردیا ۔ اس حملے میں چونسٹھ64 افراد گولی لگنے22افراد خنجر لگنے ' گیارہ پتھر تلے کچلے جانے اور پچاس سڑکوں پر حادثات کے باعث مارے گئے ۔
٭…پیراگویہ میں 2004ء کے دوران آتش بازی کے باعث 400افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
٭…ایلسواڈور میں38افراد مارے گئے جب کہ260زخمی ہوئے یہ لوگ ساحلوں اور دریا کے کنارے پر نیو ایئر نائٹ منا رہے تھے۔
٭…بیونس آئرس ارجنٹائن میں 2002ء میں 100افراد مارے گئے۔
٭…برطانیہ میں 2002ء کی نیو ایئر نائٹ کی آتشبازی نے1362افراد کو متاثر کیا ۔ ان میں بے شمار لوگ اپنے اعضا ء سے محروم ہوگئے ۔ چالیس گھروں کو آگ لگ گئی اور500سو گاڑیاں تباہ ہوئیں۔جبکہ 4825جانور بھی جل کر مر گئے۔
٭…2002ء میں نیو یارک شہر میں 15افراد مارے گئے اور 50شدید زخمی ہوگئے۔
٭…2005ء میں پاکستان میں کثرت شراب نوشی اور زہریلی شراب پینے کے باعث سینکڑوںافرادجان سے ہاتھ دھو بیٹھے  ۔###٭…٭…٭
نیو ایئر نائٹ منانے کے ابتدائی مختلف انداز
ایک وقت تھا جب نیوایئرکے موقع پر۔۔۔۔۔۔۔
٭…جنوبی ایشیا میں پرندے اور فاختائیں آزاد کرتے تھے۔
٭…یہودی لوگ مخصوص کھانوں کے ساتھ مذہبی تقریبات منعقد کرتے تھے۔
٭…جاپانی چاولوں کا کیک تیار کرتے تھے۔
٭…امریکی لوگ 31دسمبر ہی سے اس کا آغاز کردیتے اور بسا اوقات بہروپ بھرتے ہوئے نئے کپڑے پہن کر منہ پر ماسک چڑھاتے۔
اور پھرانیسویں صدی میں برطانیہ کی رائل نیوی نے جب نیوایئر نائٹ منانے کا باقاعدہ آغاز کیا اور اسے دنیا بھر میں پھیلا دیا تو۔۔۔۔
مندرجہ بالاتمام ابتدائی چیزوں اور کھانوں کی جگہ آہستہ آہستہ شراب کباب اور شباب نے لے لی تقریبات نے ڈانس پارٹیوں کا رنگ اختیار کرلیا ۔ پھر وہی سب کچھ ہونے لگا جو کچھ آج ہورہا ہے۔###٭…٭…٭
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ڈپریشن اورکولیسٹرول میں توازن کیلئے نمازبہترین علاج ہے:حکیم خالد

نماز تراویح 'بیسیوں امراض سے تحفظ فراہم کرتی ہے:کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان

لاہور :موجودہ ملکی سیاسی'سماجی و معاشی حالات کے باعث ڈپریشن (یاسیت )کی مرض میں انتہائی اضافہ ہو رہا ہے ۔ ڈپریشن کے خاتمہ کیلئے وضو ' نمازپنجگانہ اور تراویح کی ادائیگی انتہائی فائدہ مند ہے اس امر کا اظہار مرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنز پاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسر حکیم قاضی ایم اے خالدنے ینگ مسلمز انٹرنیشنل کے زیر اہتمام''نماز پنجگانہ اور تراویح ۔جدید تحقیق و طبی نکتہ نگاہ '' پر مبنی خصوصی لیکچر میں کیاانہوں نے کہا کہ جدید تحقیقات کے مطابق ڈپریشن کے خاتمہ کیلئے وضو 'نماز پنجگانہ اور تراویح کی ادائیگی کو دنیا بھر کے محققین نے تسلیم کیا ہے۔امریکن ہاروڈ یونیورسٹی کے ایک معروف محقق ڈاکٹر ہربرٹ بِنسن نے اپنی ایک تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ دوران نماز تراویح قرآنی آیات بار بار سننے اور ذکر الٰہی سے عضلات میں تحریک پیدا ہونے کے علاوہ ذہن برے خیالات سے پاک ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ایک خاص قسم کاری لیکسیشن ریسپونس Relaxation Responseوجود میں آتا ہے جس سے بلند فشارِ خون میں واضح کمی نمودار ہونے کے علاوہ جسم میں آکسیجن کی تقسیم میں بہتری سے 'قلب اور پھیپھڑوں کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔قاضی خالد نے کہا کہ دنیا میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس میں نمازوں اور تراویح میں جسم کی حرکات و سکنات' روحانی ورزش کے طورپر استعمال ہوتی ہیں۔ اگر ایک مسلمان نمازیں اور تراویح باقاعدہ ادا کرتا ہے تو وہ نہ صرف زندگی کے مشکل ترین کام اور بھی بخوبی انجام دینے کے قابل بن جاتا ہے بلکہ اس سے بیسیوں طبی و روحانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔حکیم خالد نے کہا کہ نماز پنجگانہ اور باقاعدہ تراویح پڑھنے سے اضافی حرارے جلتے ہیں جس سے موٹاپے اور اضافی وزن میں کمی پیدا ہو جاتی ہے۔بند جوڑ کھل جاتے ہیں اورہڈیوںو عضلات میںمضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔میٹابولزم کی رفتار میں سرعت اورگردشِ خون پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔رفتارِ قلب اور کولیسٹرول اعتدال پر رہتا ہے۔یکسوئی اور مکمل دھیان سے مراقبہ کے تمام فوائد حاصل ہوتے ہیںیاداشت میں بہتری آجاتی ہے پریشانی اور افسردگی سے چھٹکاراحاصل ہوتا ہے۔ڈپریشن یاسیت اوربے خوابی سے نجات مل جاتی ہے۔جسمانی اور ذہنی دباؤ دور ہو کرروح کی پاکیزگی اور تازگی حاصل ہوتی ہے نظام تنفس اورقلب پر مثبت اثرات پڑنے سے دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات میں کمی پیدا ہوتی ہے۔ہڈیوں کی بیشتر بیماریوںسے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بعض محققین کے مطابق عبادت کا یہ انداز اینٹی ایجنگ کیفیت رکھتا ہے نیزبڑھاپے میں بھی متحرک اور فعال رہا جا سکتا ہے تمام نمازوں اور تراویح کی ادائیگی سے رضائے پروردگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طبی فوائد حاصل کر کے ایک بہترین اورصحت مند زندگی گذاری جا سکتی ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

لوکاٹ:ایک صحت بخش'مزیدار پھل

تحریر وتحقیق :حکیم قاضی ایم اے خالد

لوکاٹ ترش اور شیریں ذائقہ پر مشتمل موسم گرما کا مزیدار پھل ہے جسے انگلش میں Eriobotrya japonicaکہا جاتا ہے۔لوکاٹ چین سے تعلق رکھتا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں یہ پھل انگریزوں کے ساتھ آیا۔جاپان اور بحیرہ روم کے علاقوں میں کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔پاکستان میں بیشتر علاقوں میں لوکاٹ کے باغات ہیںوادی سوات 'کلر کہار'وادی کہون'پوٹھوہار ان میں سے اہم ترین ہیں۔تازہ پھل کے طور پر کھائے جانے کے علاوہ دنیا بھر میں لوکاٹ سے مختلف مشروبات'جام' جیلی اور چٹنیاںsauces وغیرہ بھی تیار کی جاتی ہیں۔جبکہ اس کے پتے اور پھل کئی امراض کیلئے باعث شفا ہیں۔
لوکاٹ میں وٹامن اے'بی٦'وٹامن سی'فولیٹ'میگنیشیم'سیلینیم'سوڈیم'زنک'کاپر'اومیگا٣اوراومیگا٦فیٹی ایسڈزپائے جاتے ہیں۔سوگرام لوکاٹ میں صرف سینتالیس کیلوریز پائی جاتی ہیںاس وجہ سے وزن کم کرنے والے افراد کیلئے لوکاٹ انتہائی خوش ذائقہ تحفہ ہے جو فائبر(ریشہ) سے بھی بھرپور ہے۔شوگر کے مریض اسے بلاجھجھک استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس کی مٹھاس نقصان دہ نہیں۔ وٹامن اے کی موجودگی اسے بصری قوت اور دانتوں کی صحت کیلئے فائدہ مند بنا دیتی ہے۔پیاس کی شدت اور متلی یا قے میں اس کا تازہ پھل یا شربت استعمال کرنے سے یقینی فائدہ ہوتا ہے۔لوکاٹ مسکن حرارت ہونے کی وجہ سے خون کی حدت کو کم کرتے ہوئے موسم گرما کی بے چینی اور گھبراہٹ دورکرتا ہے۔امراض قلب کے مریضوں میں دل کو فرحت اور سکون بخشتا ہے۔نظام انہضام کیلئے لوکاٹ انتہائی مفید ہے۔غذا کو جلد ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔بواسیر کی مرض میں لوکاٹ بے حد مفید ہے۔لوکاٹ صفراوی اور دموی امراض میں معاون دوا کا کام کرتا ہے۔مصفی خون ہونے کی وجہ سے گرمی دانوں میں موثر ہے۔
ہمارے ہاں لوکاٹ کے پتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتااور اسے ضائع کردیا جاتا ہے جبکہ ان کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لوکاٹ کے پتے فولاد'کاپر'کیلشیم'میگنیشیم اور دیگرمنرلز(معدنیات)کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔لوکاٹ لیف سے تیارشدہ ہربل ٹی'متلی 'قے'ڈائریا'ڈیپریشن اور مختلف قسم کے اورام ختم کرنے میں فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔امراض تنفس خصوصاًپھیپھڑوں کی بعض جدید امراض( سی اوپی ڈی'وغیرہ)میں لوکاٹ لیف ایکسٹریکٹ مفید ہے۔لوکاٹ لیف اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی ایجنگ صلاحیت رکھتے ہیں۔جلد اور دیگر اقسام کے کینسر کے بچاؤ میں لوکاٹ کے پتے ایک ڈھال کا کام کرتے ہیں۔لوکاٹ کے پتے انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو طاقتور بناتے ہیں۔
چائینز گورنمنٹ لوکاٹ لیف کو اینٹی شوگرایجنٹ کے طور پر تسلیم کر چکی ہے اور اس سے ہربل ادویات کی تیاری کی منظوری دے چکی ہے۔لوکاٹ لبلبہ کو تقویت فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی جسم میںTormentic acidپیدا کرتا ہے جو انسولین کی پروڈکشن کرکے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے کا باعث بنتا ہے۔اس حوالے سے لوکاٹ کے پتے 7 عدد ایک کپ پانی میں جوش دے کرچائے بنائیں اس ہربل ٹی کے ساتھ گٹھلی جامن کا 5 گرام سفوف صبح منہ نہار پھانک لیں چند دنوں میں شوگر کنٹرول ہو جائے گی۔نشاستہ دار غذا 'آلو'چاول'چینی وغیرہ سے پرہیز ضروری ہے۔
لوکاٹ لیف جلد کی سوزش اور ورم میں فائدہ مند ہے جبکہ اس میں اینٹی وائرل خاصیت بھی پائی جاتی ہے۔اس لئے متعدد قسم کی وائرل انفیکشنز میں موثر ہے۔لوکاٹ لیف میں2-alpha-hydoxyursolic acidکی موجودگی اسے ایچ آئی وی ایڈز وائرس کو کمزور کرنے کا باعث بناتی ہے۔علاوہ ازیں جگر کے پچیدہ امراض میں بھی لوکاٹ کے پتے مفیداثرات رکھتے ہیں۔
احتیاط:۔لوکاٹ کی بعض اقسام اور خام حالت میں لوکاٹ ترش ہوتا ہے جو گلے میں خراش اور کھانسی کا باعث بن سکتا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
آخر میںشربت لوکاٹ کی ایک ریسپی نذر قارئین ہے۔
شر بت لو کاٹ
اشیائ:
لوکاٹ آدھا کلو( رس نکال لیں)
چینی ایک کلو
پانی ایک بڑا گلاس
ترکیب:
لوکاٹ کا رس پانی سمیت چینی شامل کر کے آگ پرخوب اچھی طرح پکائیں قوام گاڑھا ہو جائے تو اتار کر ٹھنڈا کر لیں اور بوتلوں میں بھر لیں ۔ تین یا چاربڑے چمچ شر بت ایک گلاس پانی میں حل کر کے پئیں۔ یہ نہایت ہی عمدہ اور مفید شر بت ہے۔ دماغ اور دل کو بے حد تقویت دیتا ہے۔ خون کے جوش کو کم کر تا ہے موسم گرما کی بیشتر امراض میں فائدہ مند ہے۔ کھٹی ڈکاریں اور منہ میں پانی آنے کو روکتا ہے متلی قے وغیرہ میں فوری اثر کرتا ہے۔
٭…٭…٭
مصادر و ماخذ:۔
1)آسان گھریلو علاج'مصنف حکیم و ڈاکٹر محمد رشید
2)http://www.crfg.org/pubs/ff/loquat.html
3)http://www.extractfruit.com/all-fruit-extract/647
4)http://www.loquatworld.com/LoquatLeaves.html
5)http://www.loquatworld.com/LoquatRecipes.html
6)http://www.nutrition-and-you.com/loquat-fruit.html
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

میتھی: غذا بھی دوا بھی

جدیدطبی تحقیق کے مطابق میتھی ذیابیطس کا بہترین علاج ہے
تخم میتھی کے استعمال سے بال لمبے اور گرنا بند ہو جاتے ہیں

حکیم قاضی ایم اے خالد


 میتھی پاک و ہند کے تقریباََ سبھی علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے لیکن قصور کی میتھی زیادہ مشہور ہے اس کے پودے کی اونچائی ایک سے ڈیڑھ فٹ ، پتے کچھ لمبے گول دانہ دار 1/2 سے ایک ڈیڑھ انچ تک لمبے پھول پیلے پھلی دو سے چودہ انچ لمبی ، جسکے اندر پیلے اور سبز رنگ کے بیج ہوتے ہیں جن کو میتھی دانہ کہا جاتا ہے میتھی کا سالن خصوصاََ پاک و ہند کے تقریباََ تمام علاقوں میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے مشہور کثیر الا ستعمال سبزی ہے جسکے پتے اور بیج بطور دواء بھی مستعمل ہیں ۔ ہندی ' اُردو 'بنگالی 'گجراتی اور راجستھانی زبانوں میں اسے میتھی ہی کہا جاتا ہے جبکہ عربی میں حلبہ فارسی میں شملیت پشتو میں ملحوزے اور انگلش میں Fenugreek کہا جاتا ہے لا طینی زبان میں اسکا نام  Trigogella Foelum Graceum Linn ہے ۔میتھی مختلف کھانوں کو خوشبو دار اور ذائقے دار بنا نے کیلئے استعمال کی جاتی ہے اچار کے مصالحے میں میتھی کے بیج ڈالے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یونانی اور آیوویدک دوائوں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے اس کا سالن پیشاب لاتا ہے میتھی موسم سرما کے امراض ' کمر درد 'تلی کے ورم اورگنٹھیا وغیرہ میں نافع ہے ۔ میتھی کے بیج بادی امراض میںمفید ہیں چہرے کے دغ دھبوں کے دور کرنے کیلئے اکثر اُبٹنوں میں بھی شامل کیے جاتے ہیں ۔ میتھی کے بیجوں کو پانی میں پیس کر ہفتے میںکم ازکم دوبارکم ازکم ایک گھنٹہ تک سر پر لگا کر دھو نے سے بال لمبے ہو جاتے ہیں اور گرنے بند ہو جاتے ہیں ۔ امراض نسواں میں تخم میتھی کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ بچہ دانی کے ورم' درد اور دیگر گائنی کے امراض میں موثر ہے میتھی پیٹ کے چھوٹے کیڑوں(چنونوں) کو مارتی ہے ہاضمہ کو درست کرتی ہے بلغمی مزاج والوں کیلئے بہت مفید ہے سردی سے محفوظ رکھتی ہے دیہاتوں میں بچے کی پیدائش ہونے کے بعدزچہ کو اس کے لڈو بنا کر کھلائے جاتے ہیں ۔ آنتوں کی کمزوری سے اگر دائمی قبض ہو تو میتھی کا سفوف گڑ ملا کر صبح و شام پانچ گرام پانی کے ساتھ کھانے سے کچھ دنوں تک نہ صرف دائمی قبض دور ہو گی بلکہ جگر کو بھی طاقت ملے گی ۔ میتھی شوگر اور گنٹھیا میں بھی بہت مفید ہے اس کے لئے میتھی کے تازہ پتے 10 گرام پانی میں پیس کر صبح نہا ر منہ استعمال کریں ۔
ذیابطیس (شوگر ) اور میتھی کی کرامات
ذیابطیس کے علاج میں میتھی کو انتہائی موثر پایا گیا ہے راشٹر یہ پوشن انو سندھان حیدر آباد (بھارت )کے ڈاکٹر آرڈی شر ما ور گھورام اور دیگر ڈاکٹروں پر مشتمل کمیٹی عرصہ دراز سے ذیابطیس (ڈایا بیٹیز )کے علاج کے سلسلے میں تحقیقات کر رہی تھی انہوں نے ہزاروں مریضوں پر تخم میتھی استعمال کروایا ۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق میتھی کے بیج ذیابطیس اور دل کے امراض میں مفید ہیں میتھی کے بیج روزانہ 20 گرام درد رے پیس کر کھانے سے صرف دس دن کے اندر ہی پیشاب اور خون میں شکر کی مقدار کم ہو جاتی ہے اگرچہ علامات مرض میںکمی ہونے سے مریض کو خود بھی فائدے کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن بہتر ہے کہ ہر دس دن بعد شوگر کا باقاعدہ ٹسٹ کر وا لیا جائے شوگر کے تناسب سے میتھی کے بیج کا استعمال 100 گرام روزانہ تک بھی کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں میتھی کے بیج دال کی طرح یا کسی سبزی میں ملا کر پکا کے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔ شوگر کے مریضوں کو میتھی کے بیج استعمال کروانے کا میرا طریقہ یہ ہے کہ میتھی کے بیجوں کو درد را پسو ا لیتا ہوں اور صبح دوپہر شام 20-20 گرام سادہ پانی سے استعمال کرواتا ہوں ۔ شوگر زیادہ ہو تو 30-30 گرام اور اگر کم ہو تو 10-10 گرام بھی صبح دوپہر شام استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔ اس کے استعمال کے کوئی مضر اثرات نہیں ہیں مذکورہ بالا کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق میتھی کے بیجوں کا استعمال ذیابطیس میں انتہائی مفید ہے اس دوران چاول ، آلو ، گوبھی ، اروی کیلا اور دیگر میٹھی اشیاء سے پرہیز ضروری ہے صبح کی سیر بھی لازمی ہے اور یاد رہے کہ میتھی کے استعمال کے دوران ایلو پیتھک ادویہ استعمال ہو رہی ہو ں تو کوئی حرج نہیں ۔
مصادر و مآخذ :۔
(1 ہندوستان کی جڑی بوٹیاں جلد چہارم(حکیم ہری چند )
(2 کتاب المفرامات (حکیم مظفر حسین اعوان )
(3کتاب الا دویہ (حکیم کبیر الدین )
(4خزائن الا دویہ جلد ششم (علامہ محمد نجم الغنی )
(5 رپورٹ ذیابطیس کمیٹی راشڑ یہ پوشن انوسدھان حیدر آباد (بھارت)
(6 طبی جرائد و رسائل
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

آم :گرمیوں کا سب سے مقبول پھل

جدید تحقیقات کے مطابق آم بریسٹ اور کولون کینسر میں موثر ثابت ہواہے

 آم کے اندر پایا جانے والا کیمیکل عنصر پولی فینول کئی قسم کے کینسر اور ٹیومرمیں فائدہ مند ہے

تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد

آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ آم گرمیوں کا سب سے مقبول پھل ہے اور دنیا بھر میں دوسرے پھلوں سے زیادہ کھایا جاتا ہے۔ آم میں نشاستہ پایا جاتا ہے اور روغنی اجزابھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔آم میں حیاتین اے 'سی' فاسفورس' کیلشیم'فولاد اور پوٹاشیم کے علاوہ گلوکوز بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ آم غذائیت بخش پھل ہے۔ یہ جسمانی کمزوری کو ختم کرتا ہے خون پیدا کرتا ہے اور جسم کو فربہ کرتا ہے۔ آم میں کیلشیم کی موجودگی ہڈیوں کیلئے مفید ہے۔ آم جگر'دل' دماغ'ہڈیوں اور پٹھوں کو سخت گرمی سے محفوظ رکھتا ہے۔ آم بچوں کو خصوصی طور پر کھلانا چاہئے۔ آم کھانسی اور دمہ کے مریضوں کیلئے بھی بہترین ہے یہ حافظے کو تقویت دیتا ہے اس لئے دماغی کمزوری والے لوگوں کوآم کا استعمال خاص طور پرکرنا چاہئے۔ آم کی مسواک دانتوں کی صفائی کیلئے مفید ہے۔آم میں موجود قدرتی اجزا دل کے امراض' کینسر اور جلدی بیماریوں سے حفاظت کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ اس میں موجود فولاد جلد کی تروتازگی اور دلکشی میں اضافے کا باعث بنتا ہے جبکہ پوٹاشیم کی بڑی تعداد بلڈ پریشر کنٹرول کرتی ہے۔ گردے کی پتھری سے حفاظت کے لئے بھی آم کا استعمال نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔
حالیہ جدید تحقیقات کے مطابق آم بریسٹ اور کولون کے سرطان سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک اہم دوا ثابت ہوا ہے۔ آم کھانے کے شوقین لوگوں میں اس سرطان کی شرح نمایاں طور پر کم دیکھی گئی ہے۔ دنیائے طب میں آم اور صحت کے درمیان تعلق پر ہونے والی پہلی طبی تحقیق کرنے والی برلن کی معروف ڈاکٹر سواسانی ٹیل کوٹ اور ان کے شوہر ڈاکٹر سیٹوٹیل کوٹ نے آم کے گودے'جوس'چھلکے'گٹھلی کو کینسر کے خلاف قوت مدافعت فراہم کرتے ہوئے نوٹ کیا۔ انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ آم کھانے والے افراد کے خون میں زہریلے مادوں کی شرح صرف 10فیصد تک تھی جبکہ دیگرآم نہ کھانے والے لوگوں کے جسموں میں شرح 35سے 40فیصد تک نوٹ کی گئی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آم سپر فوڈ کہلا سکتا ہے۔ تحقیق کے دوران جسم سے زہریلے مادے اور کینسر کے سیل ختم کرنے کیلئے بلیوبیری' آم' پائن ایپل سمیت دیگر پھلوں پر تجربات کئے گئے جن میں سب سے زیادہ آم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق انگوروں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ سب سے بہتر خون صاف کرنے والا فروٹ ہے اور یہ ہے بھی درست مگر آم نے اس پر بھی سبقت حاصل کرلی ہے۔ ماہرین طب نے اس تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آم کو روزمرہ خوراک بنانے کیلئے زرعی سطح پر نئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آم کے اندر پائے جانے والے کیمیکل عنصر پولی فینول سے کولون' بریسٹ' پھیپھڑوں اور ہڈیوں کے گودے کے سرطان اور پروسٹیٹ کینسر کے ٹیومرز کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ عنصر عام طور پر پودوں میں پایا جاتا ہے مگر سب سے بہتر اور اعلی کوالٹی کا حاصل یہ عنصر آم میں ہی ملتا ہے۔
کچے آم (کیری )بھی صحت کیلئے بہت مفید ہیں ۔ کچے آم میں وٹا من بی ون اور بی ٹو پکے ہوئے آم کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نیا سین کی قابل ذکر مقدار بھی اس میں پائی جاتی ہے ۔ شد ید گرمی اور لوکے تھپیڑوں سے بچنے کیلئے کچے آم کو آگ میں بھون کر اس کا نرم گوداشکر اورپانی میں ملا کر شربت کے طور پر استعمال کرنے سے گرمی کے اثرات کم ہو جاتے ہیں کیری پر نمک لگا کر کھانے سے پیاس کی شدت کم ہو جاتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے جسم میں ہونیوالی نمک کی کمی بھی پوری ہو جاتی ہے کیری میں موجود وٹامن سی خون کی نالیوں کو زیادہ لچکدار بناتی ہے خون کے خلیات کی تشکیل میں بھی مدد گار ہوتی ہے غذا میں موجود آئرن کو جسم میں جذب کرنے میں بھی یہ وٹامن معاونت کرتی ہے اور جریان خون روکتی ہے کچے آم میں تپ دق' انیمیا اور پیچش سے بچا ؤکیلئے جسم کی مزاحمتی صلاحیت کو طاقتور بنانے کی قوت بھی پائی جاتی ہے کیری میں جو ترش تیزابی مادے ہوتے ہیں وہ صفرا کے اخراج کو بڑھا دیتے ہیں اور آنتوں کے زخموں کو مندمل کرنے میں اینٹی سیپٹک کے طور پر کام کرتے ہیں کھٹے کچے آم جگر کو صحت مند بناتے ہیں طبیب حضرات صفرادی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے کیری کی قاشوں کو شہد اور کالی مرچ کے ساتھ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں کچے آموں کو آنکھوں کی مرض اتوندیاشب کوری( جس میں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے) میں بھی مفید پایا گیا ہے
آم کے پتے' چھال'گوند'پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو' آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیںجب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیںپیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں'سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں' آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی' دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ' ارنڈ کے درخت کی چھال سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے اس لیے سیلان الرحم(لیکوریا) آنتوں اور رحم کی تکالیف 'پیچش و خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر دیا جاتا ہے۔ آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے اس لئے کثرت حیض' پرانی پیچش' اسہال' بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔
٭…٭…٭

آم کی مختلف اقسام



یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں۔
دسہری
اس کی شکل لمبوتری'چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد'نرم'ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔
چونسا
یہ آم قدرے لمبا'چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد'نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری'سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت)کے قریبی قصبہ چونسا سے ہوئی۔
انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ' چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ'ٹھوس' سرخی مائل زرد' نہایت شیریں' خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی'بیضوی اور نرم'ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت)کے قریب قصبہ رٹول سے ہوئی۔
لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد'ملائم' شیریں'رس دار ہوتا ہے۔
 الماس
اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ'چھلکا زردی مائل سرخ'گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم' شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔
فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل سطح برائے نام کھردری 'چھلکا موٹا اور نفیس' گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل سرخ' خوش ذائقہ'رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔
سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا'چھلکا زرد' چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں' رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔
گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ'چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔
مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔
 سہارنی
سائز درمیانہ اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔
فضل دین یا فضلی
یہ بہت بڑے بڑے سائز کاآم ہوتا ڈیڑھ سے دوکلو تک کے وزن کا بھی دیکھا گیا ہے۔بیرونی چھلکا سبز رنگ کا اور اندرونی گودا پیلا 'شیریں ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

کھیوڑہ کانمک: انسانی صحت کیلئے وائٹ گولڈ

اعتدال سے نمک کا استعمال بیشتر امراض میں موثر ہے

 نمک کی زیادتی' ہائی بلڈ پریشر'امراض قلب اور فالج وغیرہ کا باعث بنتی ہے

 حکیم قاضی ایم اے خالد


 اعتدال سے نمک کا استعمال بیشتر امراض سے بچاؤ میں موثر ہے تاہم نمک کی زیادتی سے ہائی بلڈ پریشر'امراض قلب اور فالج وغیرہ وقوع پذیر ہو سکتے ہیں ۔کسی بھی قسم کے فلو میں نمکین پانی ناک میں ڈالنے سے فائدہ کرتاہے ۔گلے کی سوزش میں نمکین پانی کے غرارے مفید تدبیر ہے ۔لو بلڈ پریشر میںنمک فوری اثر کرتا ہے ۔گردوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لئے پاکستان کاچٹانی نمک انتہائی مفید ہے۔ نمک متعدد زہروں کا تریاق ہے۔سلور نائٹریٹ کو غیر محلول کلورائیڈ میں تبدیل کرکے اسے غیر موثر کر دیتا ہے۔طبیب اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نمک کا محلول بچھو کاٹنے پر استعمال فرمایا۔نمک نظام ہضم سے متعلق بیشتر امراض میں فائدہ مند ہے لیکن اس کی روزانہ مقدار خوراک ایک سے تین گرام ہے اس سے زیادہ مقدار امراض کا باعث بن سکتی ہے ۔جدید تحقیقات کے مطابق نمک دمہ' ملیریا'ٹائیفائڈ'جوڑوں کے درداور کئی جلدی امراض میں فائدہ مند پایا گیا ہے کھیوڑہ کا نمک انسانی صحت کیلئے وائٹ گولڈ کی حیثیت رکھتا ہے حال ہی میں بھارت کی الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ طبیعیات میںایک ریسرچ سرانجام دی گئی ہے تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور بھارت کے اپہل اسپتال واراناسی میں تعینات ممتاز ماہرِ گردہ ڈاکٹر پردیپ کمار رائے کی اس ریسرچ کے مطابق چٹانی نمک میں سوڈیم اور پوٹاشیم کا ارتکاز 38سے پانچ فی صد کے تناسب سے ہے جو کہ کسی بھی دستیاب نمک کے مقابلے میں گردے کے مریضوں کی ضروریات سے بہتر مطابقت رکھتا ہے ۔دیگر ذرائع سے تیارشدہ نمک میں سوڈیم یا پوٹاشیم کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس کے ضمنی اثرات بلند فشار خون اور امراضِ قلب کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن پاکستانی چٹانی نمک میں ان عناصر کی مقدار بہترین انداز سے متوازن ہوتی ہے۔یہ تحقیقی رپورٹ ''اسپرنگر''لندن میں شائع ہوئی ہے۔یاد رہے کہ ایشیا میں چٹانی نمک کے بڑے ذخائر پاکستان کے صوبہ پنجاب میں دارالحکومت اسلام آباد سے 200کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع کھیوڑہ نمک کی کانوں میں ہیں۔ وہاں نمک کے ذخائر کا تخمینہ 22کروڑ ٹن لگایا گیا ہے۔ یہ دنیا میں نمک کی دوسری بڑی کان ہے۔ پولینڈ میں وائلیکز کی کان سب سے بڑی ہے۔ایک وفاقی ادارے پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (پی ایم ڈی سی)کے زیرِ انتظام ہر برس کھیوڑہ کی کان سے 325,000ٹن نمک نکالا جاتا ہے۔ماہرینِ ارضیات کے تخمینے کے مطابق کھیوڑہ میں پائے جانے والے چٹانی نمک کی عمر تقریبا 60کروڑ برس ہے۔حال ہی میں حکومت نے کان کو ایک سیاحتی مقام کی حیثیت سے ترقی دینا شروع کی جس کے لئے زمین کی سطح پر واقع مرکزی سرنگ کو ایک ریستوران کی شکل دی گئی ہے۔ ہر برس ہزاروں ملکی و غیر ملکی سیاح کھیوڑہ کی کانوں کی سیر کرنے آتے ہیں۔اس کے اندر اہم دلچسپیوں میں تالاب اور ایک مسجد شامل ہیں جہاں مختلف رنگوں کے چٹانی نمک کی اینٹوں سے کھوکھلی دیواریں بنائی گئی ہیں جو کہ روشنی میں بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔دمہ کے مریضوں کے لئے کان کے اندر ایک اسپتال قائم کرنے کا منصوبہ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن کے زیر غورہے۔
٭…٭…٭
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

طب یونانی میں ہیپاٹائٹس کا موثر علاج موجود ہے

بیوٹی پارلرز اور حجام ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ ہیں

تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد

پاکستان میں1کروڑ 50لاکھ افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں۔آلودہ پانی اور ناقص خوراک ہیپا ٹائٹس اے اور ای کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے ۔جبکہ ہیپاٹائٹس بی 'سی اور ڈی استعمال شدہ سرنجز 'خون کی منتقلی اور دیگر وجوہات سے پیدا ہوتا ہے خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں بیوٹی پارلر کا کردار اہمیت کا حامل ہے جبکہ مردوں میں غیرمعیاری ہئیرڈریسر یاحجام ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی بیماری خون یا اس کی مصنوعات کے تبادلے'استعمال شدہ سرنج یا منشیات میںمشترکہ انجیکشن'شیونگ بلیڈ'ناک یا کان چھیدنے والے آلودہ اوزار'بیوٹی و ڈینٹل اور دیگرسرجری آلات کا سٹریلائزڈ کئے بغیر استعمال' آلودہ پانی اور کھانے پینے کی بازاری اشیا ء سے پھیلتی ہے ۔ہیپاٹائٹس پاکستان میں سنگین صورت حال اختیار کرچکاہے۔حکومتی اداروںو افراد کی طرف سے سال میں ایک مرتبہ صرف ہیپاٹائٹس ڈے پر فائیو سٹارز ہوٹلز میں سیمینارز کے انعقاد کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے حکومت روزانہ کی بنیادوں پر حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ٹاسک فورس قائم کرے اور تمام مروج طریق علاج خصوصاًطب یونانی سے بھی استفادہ کیا جائے اس سلسلے میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو مقامی طریق علاج سے ہیپاٹائٹس پر قابو پا چکا ہے۔ بھارت میںسینٹرل کونسل فار ریسرچ آیورویدک اینڈسدھا(36)یونٹس'سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن(25)یونٹس اور دیگر حکومتی ادارے قائم ہیں جہاں ہیپاٹائٹس'ایڈز'برص(پھلبہری)سمیت بیسیوں پچیدہ اورایلوپیتھک طریقہ علاج کے مطابق ناقابل علاج امراض کا کامیاب یونانی علاج کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس امر کا فقدان ہے دیگر تمام شعبوںاور اداروں کی تعمیر میں کوتا ہیوں کے ساتھ ساتھ ہم اپنی قوم کے مسئلہ صحت کے حل کیلئے بھی اغیار کے محتاج ہیں۔ایلوپیتھک ادویات اورتمام اقسام کی ویکسینیشن پاکستان میں تیارہونے کی بجائے قیمتی زرمبادلہ کے عوض باہر سے آرہی ہیں۔لیور ٹرانس پلانٹ کیلئے بھی پاکستانی بھارت اور دیگر ممالک جاتے ہیں جبکہ وطن عزیز میں اس کا سرکاری اہتمام ندارد ہے۔پاکستانی صحت کے اداروں کیلئے کسقدر شرم کا مقام ہے کہ دنیا میں پاکستان کو'' ورلڈ کیپٹل آف ہیپاٹائٹس'' کہا جارہا ہے۔ ہیپاٹائٹس کا طب یونانی (اسلامی) میں شافی علاج موجود ہے پاکستان میں غالب طریقہ علاج کے ماہرین امراض جگر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ہیپاٹائٹس کی میڈیکیشن کے لئے'' الفاانٹرفیرون'' ہے۔ یہ طویل المعیاد تعدیے انفیکشن کے علاج کے طور پر دی جانے والی دوا ہے جو جسم میں قدرتی طور پر پیداھونے والی انٹرفیرون کی ایک مصنوعی شکل ہے جو جسم میں چھوت سے دفاع کے لئے پیدا ھوتی ہے۔ اس کے علاوہ پیگ انٹرفیرون بھی موجود ہے لیکن یہ انٹرفیرون سے زیادہ قیمتی ہے۔پاکستان میںہیپاٹائٹس سی کی قسم یا جینو ٹائپ3ہے۔جس کا علاج نسبتاً آسان ہے اس لیے ہمارے ہاںایلوپیتھک طریقہ علاج میں پیگ انٹرفیرون کی بجائے سادہ انٹرفیرون استعمال کی جاتی ہے۔خدانخواستہ جن لوگوں کے پاس ان جدید ادویات کے استعمال کے وسائل موجود نہ ہوں۔وہ ہیپا ٹائٹس سی کے قدرتی اور گھریلوعلاج کیلئے درج ذیل نسخہ مسلسل کافی عرصہ استعمال کریں۔ انشا اللہ اس موذی مرض کے عواضات سے شفا یا بی ہوگی۔ملٹھی'سونف 'دارچینی ہر ایک تین گرام رات کو آدھے گلاس پانی میں بھگو دیں صبح یہ پانی نتھار لیں اورمولی کا پتوں سمیت پچاس ملی لیٹر رس نیز سادہ گلوکوز پچیس گرام شامل کر کے نہار منہ استعمال کریں ایسی ہی خوراک شام 5بجے لیں۔(ذیابیطس کے مریض گلوکوز کے بغیر استعمال کریں۔)رات سوتے وقت معجون دبیدالورد 'دس گرام عرق کاسنی ایک کپ کے ہمراہ کھائیں۔اس مرض کا طب یونانی (اسلامی) میں شافی علاج موجود ہے تاہم اس کیلئے عطائی حکیموں سے بچنا ضروری ہے اور صرف بااعتماد کوالیفائڈ اطبا سے رجوع ضروری ہے۔
٭…٭…٭
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

روزہ ' جسمانی صحت اور جدید طبی تحقیقات


٭تحریر :حکیم قاضی ایم اے خالد٭

٭روزہ متعدد جسمانی و روحانی امراض کا بہترین علاج ہے٭

٭روزہ شوگر لیول' کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے٭ اسٹریس اور ذہنی تناؤ ختم کرتا ہے٭

٭وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں٭

٭افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیا کا بکثرت استعمال کئی امراض کا باعث بنتا ہے٭


خالقِ کائنات نے تین اقسام کی مخلوق پیدا کی ہیں۔نوری یعنی فرشتے'ناری یعنی جن اور خاکی یعنی انسان جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔دراصل انسان روح اور جسم کے مجموعے کا نام ہے اور اس کی تخلیق اس طرح ممکن ہوئی کہ جسم کو مٹی سے بنایا گیا اور اس میں روح آسمان سے لا کر ڈالی گئی۔جسم کی ضروریات کا سامان یا اہتمام زمین سے کیا گیا کہ تمام تر اناج غلہ پھل اور پھول زمین سے اگائے جبکہ روح کی غذا کا اہتمام آسمانوں سے ہوتا رہا۔ہم سال کے گیارہ ماہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اس کائنات میں پیدا ہونے والی اشیاء سے پورا کرتے رہتے ہیں اور اپنے جسم کو تندرست و توانا رکھتے ہیں۔مگر روح کی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہمیں پورے سال میں ایک مہینہ ہی میسر آتا ہے جو رمضان المبارک ہے۔

دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمان اسلامی و قرآنی احکام کی روشنی میںبغیر کسی جسمانی و دنیاوی فائدے کاطمع کئے تعمیلاًروزہ رکھتے ہیںتاہم روحانی تسکین کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیںجسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل 'ڈاکٹر جوزف 'ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر'ڈاکٹر ایم کلائیو'ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ'ڈاکٹر جیکب 'ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ'ڈاکٹر برام جے 'ڈاکٹر ایمرسن' ڈاکٹرخان یمر ٹ' ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے۔کچھ عرصہ قبل تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ روزہ کے طبی فوائد نظام ہضم تک ہی محدود ہیںلیکن جیسے جیسے سائنس اور علم طب نے ترقی کی'دیگر بدن انسانی پر اس کے فوائد آشکار ہوتے چلے گئے اور محقق اس بات پر متفق ہوئے کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے۔

آیئے! اب جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں کہ روزہ انسانی جسم پر کس طرح اپنے مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔

روزہ اور نظام ہضم :۔

نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضا پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضا جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان، گلا، مقوی نالی(limentary Canal)یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی۔ معدہ، بارہ انگشتی آنت، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضا اس نظام کا حصہ ہیں۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل سے یہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ ' جنک فوڈزاور طرح طرح کے مضر صحت الم غلم کھانوں کی وجہ سے متاثر ہوجاتا ہے۔ روزہ اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر نے نظام ہضم میں حصہ لینے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہوجائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کردیتا ہے اور جگر فورا مصروف عمل ہوجاتا ہے۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہوکر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن( Globulin)جو جسم کے محفوظ رکھنے والے مدافعتی نظام کو تقویت دیتا ہے' کی پیداوار پر صرف کرتاہے۔

رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے ۔نظامِ ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں بھوک کے دوران یہ رطوبتیںزیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔جبکہ روزے کی حالت میں دماغ سے رطوبت خارج کرنے کا پیغام نہیں بھیجا جاتا کیونکہ دماغ میں خلیوں میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ روزے کے دوران کھانا پینا منع ہے ۔یوں نظامِ ہضم درست کام کرتاہے۔روزہ نظام ہضم کے سب سے حساس حصے گلے اور غذائی نالی کو تقویت دیتا ہے اس کے اثر معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بہتر طور پر متوازن ہو جاتی ہیں جس سے تیزابیت (Acidity)جمع نہیں ہوتی اس کی پیداوار رک جاتی ہے ۔معدہ کے ریاحی دردوں میں کافی افاقہ ہوتا ہے قبض کی شکایت رفع ہو جاتی ہے اور پھر شام کو روزہ کھولنے کے بعد معدہ زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام انجام دیتا ہے ۔روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں۔

روزہ اور دوران خون :۔

روزوں کے جسم پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر خون کے روغنی مادوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں خصوصاًدل کے لئے مفید چکنائی'' ایچ ڈی ایل ''کی سطح میں تبدیلی بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے دل اور شریانوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دو مزید چکنائیوں ''ایل ڈی ایل''اور ٹرائی گلیسر ائیڈ کی سطحیںبھی معمول پر آ جاتی ہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک ہمیں غذائی بے اعتدالیوں پر قابو پانے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور اس میں روزوں کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹا بولزم )کی شرح بھی بہت بہتر ہو جاتی ہے۔یاد رہے کہ دوران رمضان چکنائی والی اشیا ء کا کثرت استعمال ان فوائد کو مفقود کر سکتا ہے۔

دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ روزے کے دوران بڑھا ہوا خون کا دباؤہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے ۔شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnanuls)کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہو چکے ہوتے ہیں اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاجم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis)سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے ۔روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہو جاتا ہے اور خون کی پیدائش میں اضافہ ہو جاتا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون کی کمی دورکر سکتے ہیں۔

روزہ اور نظام اعصاب :۔

روزہ کے دوران بعض لوگوں کو غصے اور چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرتے دیکھا گیا ہے مگر اس بات کو یہاں پر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان باتوں کا روزہ اور اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس قسم کی صورت حال انانیت (egotistic)یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے دوران روزہ ہمارے جسم کا اعصابی نظام بہت پر سکو ن اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے نیز عبادات کی بجا آواری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ خشوع وخضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔روزہ کے دوران چونکہ ہماری جنسی خواہشات علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔

روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو کہ صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے اس کے علاوہ انسانی تحت الشعورجو رمضان کے دوران عبادات کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہو جاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤاور الجھن کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے ۔

روزہ اور انسانی خلیات :۔

روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال مقدار میں کم ہوجاتے ہیں۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial)سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas)کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں۔

روزہ اور غیر مسلموں کے انکشافات :۔

اسلام نے روزہ کو مومن کے لئے شفاقرار دیا اور جب سائنس نے اس پر تحقیق کی تو سائنسی ترقی چونک اٹھی اور اقرار کیا کہ اسلام ایک کامل مذہب ہے ۔

٭…آکسفورڈیونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مورپالڈ اپنا قصہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولہ دیا ہے اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف روزے کا فارمولہ ہی دے دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اورکوئی نعمت نہ ہوتی میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانو ں کے طرز پر رکھنا شروع کئے میں عرصہ دراز سے ورم معدہ (Stomach Inflammation)میں مبتلا تھا کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقعی ہو گئی ہے میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا اور ایک ماہ بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ۔

٭…پوپ ایلف گال ہالینڈکے سب سے بڑے پادری گذرے ہیں روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائیں ۔میں نے شوگر'دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے ۔شوگرکے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ا ن کی شوگر کنٹرول ہو گئی ۔دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا سب سے زیادہ افاقہ معدہ کے مریضوں کو ہوا ۔

٭…فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا(food particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔

٭…مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤکو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے روزہ دار کو جسمانی کھینچاؤ اور ذہنی تناؤسے سامنا نہیں پڑتا۔

٭…جرمنی'امریکہ 'انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروںکی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک'کان'گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔

غرضیکہ روزہ انسانی صحت کیلئے انتہائی فائدہ مند ہے۔روزہ شوگر لیول 'کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اسٹریس و اعصابی اور ذہنی تناؤختم کرکے بیشتر نفسیاتی امراض سے چھٹکارا دلاتاہے روزہ رکھنے سے جسم میں خون بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے اور جسم کی تطہیر ہوجاتی ہے۔روزہ انسانی جسم سے فضلات اور تیزابی مادوں کا اخراج کرتا ہے روزہ رکھنے سے دماغی خلیات بھی فاضل مادوں سے نجات پاتے ہیںجس سے نہ صرف نفسیاتی و روحانی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے بلکہ اس سے دماغی صلاحیتوں کو جلامل کر انسانی صلاحیتیں بھی اجاگر ہوتی ہیںروزہ موٹاپا اورپیٹ کو کم کرنے میں مفید ہے خاص طور پر نظام انہضام کو بہتر کرتا ہے علاوہ ازیں مزید بیسیوں امراض کا علاج بھی ہے ۔

روزہ اور احتیاطی تدابیر:۔

یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مندرجہ بالا فوائد تبھی ممکن ہوسکتے ہیں جب ہم سحر وافطار میں سادہ غذا کا استعمال کریں۔خصوصاً افطاری کے وقت زیادہ ثقیل اور مرغن تلی ہوئی اشیا ء مثلا ًسموسے 'پکوڑے 'کچوری وغیرہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے جس سے روزے کا روحانی مقصد تو فوت ہوتا ہی ہے خوراک کی اس بے اعتدالی سے جسمانی طور پر ہونے والے فوائدبھی مفقود ہوجاتے ہیں بلکہ معدہ مزید خراب ہوجاتا ہے لہذا افطاری میں دستر خوان پر دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کرنے کی بجائے افطار کسی پھل کھجور یا شہد ملے دودھ سے کرلیا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کچھ کھالیا جائے اس طرح دن میں تین بار کھانے کا تسلسل بھی قائم رہے گا اور معدے پر بوجھ نہیںپڑے گا ۔افطار میں پانی دودھ یا کوئی بھی مشروب ایک ہی مرتبہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے کی بجائے وقفے وقفے سے استعمال کریں ۔انشاء اللہ ان احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد سے یقیناًہم روزے کے جسمانی وروحانی فوائدحاصل کر سکیں گے۔٭٭

٭تحریر مصنف کا حوالہ دے کر شایع و نشر کی جا سکتی ہے۔٭
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

دنیا بھر میں کپنگ تھیراپی(حجامہ)سے علاج کا رجحان بڑھ رہا ہے:حکیم قاضی ایم اے خالد

[IMG]
حجامہ (پچھنے لگوانا) سنت رسولۖ اورسرجری کا بہترین متبادل ہے
حجامہ چین کاقومی علاج ہے جبکہ عرب ممالک اورجنوب مشرقی ایشیا میں صدیوں سے رائج ہے

تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد

دنیا بھر میں قدیم طریقہ علاج کپنگ تھیراپی(حجامہ)کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔حجامہ(پچھنے لگوانا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور سرجری کامتبادل ایک بہترین علاج ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پچھنے لگوائے اور دوسروں کو ترغیب دی اس سلسلے میں بیسیوں مصدقہ احادیث مبارکہ موجود ہیں۔حجامہ گرم اور سرد دونوں علاقوں میں مفید ہے۔ چین کا یہ قومی علاج ہے جبکہ حجامہ عرب ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا میں صدیوں سے رائج ہے۔ حجامہ اپنی افادیت کی وجہ سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(WHO) سے ریکگنائزڈہے امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے آلٹرنیٹو میڈیسن کے شعبوں میں حجامہ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔امریکہ 'فرانس اور برطانیہ میں اس حوالے سے کلینکل ٹرائلز جاری ہیںہالی وڈ کے متعدد اداکار اور اداکارائیں قدیم یونانی طریق علاج کے مطابق جونکوں سے علاج'فصداور حجامہ سے مستفید ہو چکے ہیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاک و ہند میں بھی حجامہ پروموٹ ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں استعمال ہونے والے آلات کی مینوفیکچرنگ کراچی میں شروع ہو چکی ہے۔علاوہ ازیںدنیا بھر میں مستعمل ان آلات کی زیادہ تر مینوفیکچرنگ چائنہ میں ہو رہی ہے حجامہ سینکڑوں امراض میں مفید ثابت ہو رہا ہے حجامہ خون صاف کرتا ہے اور حرام مغز کو فعال بناتا ہے شریانوں پر اچھا اثر ہوتا ہے پٹھوں کے اکڑا ؤکو ختم کرنے اور اسٹریس و ٹینشن کیلئے مفید ہے دمہ 'پھیپھڑوں کے امراض اور انجائنا کیلئے مفید ہے سردرد دردِ شقیقہ اور دانتوں کے درد کو آرام دیتا ہے آنکھوں کی بیماریوں میں مفید ہے رحم کی بیماریوں اور ماہواری کیلئے مفید ہے گنٹھیا اور عرق النسامیں مفید ہے فشار خون میں آرام پہنچاتا ہے کندھوںسینہ اور پیٹھ کے درد میں مفید ہے کاہلی سستی اور زیادہ نیند آنے کی بیماریوں میں مفید ہے ناسور'کیل مہاسوں اور خارش میں مفید ہے دل کے ضعف اور دردِ گردہ میں مفید ہے مواد بھرے زخموں کیلئے مفید ہے الرجی میں مفید ہے جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو اس جگہ لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ حجامہ صحت یاب لوگ بھی کرا سکتے ہیں کیونکہ یہ سنت ہے اور اس میں بیماریوں سے بچاؤ ہے۔ معالجین حجامہ' پچھنا کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد دستانے ریزر بلیڈ اور گلاس کو احتیاط کے ساتھ ضائع کر دیں اور انہیں دوبارہ استعمال مت کریں اور بہتر یہ ہے کہ انہیں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زمین میں دبا دیں
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

مسٹر آلو ۔۔۔۔۔

کچن ریمیڈیز KITCHEN REMEDIES

مسٹرآلو۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
پندرہویں صدی کے آخر میں جنوبی امریکہ کے مانٹ اینڈیز میںہسپانویوں نے آلو دریافت کیا۔ایک زمانہ تھا کہ آلو کی کاشت کبھی جنوبی امریکہ کے چند علاقوں تک محدود تھی۔ آلو پہلے پہل یورپ پہنچا جہاں سے وہ برصغیر پاک و ہندسے ہوتا ہوا چین پہنچا۔ آج آلودنیا بھرکی ہردلعزیز سبزی ہے لیکن پوری دنیا میں یہ سارا سال نہیں ملتی۔پاک وہند کی یہ خوش قسمتی ہے کہ نہ صرف یہاںآلوکی بہترین فصل ہوتی ہے بلکہ یہ سارا سال دستیاب رہتا ہے اورپاک و ہند کے باسیوں کی پسندیدہ غذا ہے ۔آلو سرد خشک تاثیر کا حامل ہوتا ہے ۔ آلو میں فولاد ' کیلشئیم' پوٹاشیئم اور فاسفورس کی خاصی مقدار ہوتی ہے ۔جو جسمانی نشونما کے لیئے بہت مفید ہے ۔ اس کے علاوہ آلو میں میگنیشیئم' سوڈیم ' گندھک 'کلورین اور آیوڈین بھی ہوتی ہے یہ اجزا بھی انسانی صحت کے لئے اہم ہیں ۔ آلو میں وٹامن اے' بی' سی'ڈی'ای'ایچ 'پی اور29فیصد کاربو ہائیڈریٹس اور 8.5فیصدپروٹین کی مقدار بھی پائی جاتی ہے۔آلو کی کئی اقسام ہیں لیکن سرخ گولااور سفید گولڈن بہترین قسمیں ہیں۔ آلو کو زیادہ پکانے سے اس کے وٹامنز ضائع ہو جاتے ہیں۔فوائد کے حوالے سے آلو کو ابال کر کھانازیادہ مفید ہے ۔
آلو کے فائدے:۔
٭…ابلے آلو بچوں کی نشوونماکے لئے مفید ہیں۔
٭…ماہر غذائیت یا معالج کی مشاورت سے کیلے اورابلے آلوکا استعمال بچوں کے لاغرپن اور کمزوری کا بہترین علاج ہے۔
٭…آلو میں پائے جانے والے میگنیشیم کی وجہ سے ابلا ہوا آلو بغیر نمک کے کھانے سے ہائی بلڈ پریشرکم ہو جاتا ہے۔
٭…ایک یا دونوں گردوں میںپتھری ہونے پر آلو کھانے اور آلو کا پانی پیتے رہنے سے پتھری ریزہ ریزہ ہوکر پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتی ہے۔تمام دن پانی کا زیادہ استعمال بھی ضروری ہے ۔آلو میں موجود میگنیشیم پتھری کو توڑتا ہے اور نئی پتھری نہیں بننے دیتا۔
٭…گردوں کے درد اور پتھری کیلئے بھنے ہوئے آلو اور مولی ہم وزن لے کر ان میں سونف' نمک اور کالی مرچ ملا کر استعمال کرنا مفید ہے۔
٭…آلوچونکہ الکلی ہے لہذا اسے باقاعدہ (بوائل) کھانے سے تیزابیت کم ہو جاتی ہے۔
٭…کچے آلو کا رس پینا Heart Burnمیں مفید ہے۔
٭…جوڑوں کے درد کے لئے بھنے ہوئے 120گرام آلو 30گرام ٹماٹر اور تھوڑی سی ادرک لے کریکجا کرکے روزانہ کھائیں ۔(نقرس اور گنٹھیاکے باعث ہونے والے جوڑوں کے درد میںآلو مفید نہیں لہذاایسے مریض آلو نہ کھائیں۔)
٭…ایگزیما میں آلوکا رس لگانا فائدہ مند ہے۔
٭…جلی ہوئی جلد پر اگر فوری طورپر آلوکاٹ کرملا جائے تو جلد نہ صرف محفوظ رہتی ہے بلکہ نشان بھی مٹ جاتاہے۔
آلو اورڈارک سرکل یعنی سیاہ حلقے دور کرنے کے نسخے:۔
[IMG]
٭…آلو کو پیس کر پتلے کپڑے میں رکھ کر پوٹلی بنالیں' اسے آنکھوں کے نیچے ہلکے ہاتھوں سے ملیں۔ آلو میں پائے جانیوالے اینزائم سیاہ حلقوں کو دور کرتے ہیں یہ نسخہ باقاعدگی سے کم ازکم ایک سے دو ہفتہ استعمال کرنا ضروری ہے۔
٭…ایک چمچ کھیرے کا رس' چار بوند شہد'چار بوند آلو کا رس'چار بوند بادام کا تیل ان سب کو اچھی طرح ملالیںاور روئی سے آنکھوں کے سیاہ حلقوں پر لگائیںیہ نسخہ ڈارک سرکل دورکرنے کے لئے انتہائی فائدہ مندہے۔ کھیرا' شہد' آلو'اور بادام میں پائے جانے والے اجزا ڈارک سرکل کو دور کرتے ہیں۔
٭…آنکھوں کے گرد موجود سوجن کو آلو کی قاشوں کے بیرونی استعمال سے ختم کیاجاسکتاہے ۔
٭…آلو کا رس اینٹی ایجنگ صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔اس کے مسلسل استعمال سے ہاتھ 'پاؤں'جسم اور چہرے کی جھریاں غائب ہو جاتی ہیں
احتیاطیں:۔
٭…اعتدال سے کسی بھی غذا کا استعمال کیا جائے تو غذائیت کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جبکہ بے اعتدالی سے نقصانات کا احتمال ہوتا ہے۔
٭…آلو دیر سے ہضم ہوتا ہے لہذا کمزور معدے والے آلو کم استعمال کریں۔
٭…آلو ریح پیدا کرتا ہے'بادی ہے اور بلغمی رطوبات کو زیادہ کرتا ہے۔ گرم مصالحوںکے ساتھ اس کا استعمال زیادہ محفوظ ہے۔
[IMG]
٭…ذیابیطس(شوگر)کے مریضوںکو آلواور اس کی مصنوعات خصوصاًچپس'فنگرچپس وغیرہ کھانے میںخصوصی احتیاط برتنی چاہئے۔
٭…تازہ ترین تحقیقات کے مطابق طبی ماہرین نے آلو اور آلو کے چپس کے زیادہ استعمال کو سخت خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آلوزیادہ کھانے سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ خواتین کو آلو کھانے سے ذیابیطس کا خطرہ زیادہ نوٹ کیا گیا ہے جبکہ مردوں میں نسبتاً کم ہاورڈ یونیورسٹی امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آلو صحت مند غذا ہے مگر اس کے بہت زیادہ استعمال سے معدے اور جگر کے افعال میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے جس سے ذیابیطس کے مرض کو پھیلنے کیلئے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ آلو میں موجود گلوکوز لبلبے کے افعال کومتاثر کرنے لگتی ہے جس سے ذیابیطس کا مرض ہو جاتا ہے۔ اس تحقیق میں 85ہزار آلو کے شائقین مردوں اور خواتین کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ طبی ماہرین نے آلو کے چپس کو سب سے زیادہ خطر ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چپس کی شکل میں اس کے خطرات 65فیصد تک چلے جاتے ہیں۔٭٭
مطبوعہ۔۔۔ ۔۔ہفت روزہ فیملی ۳تا۹جون۔۲۰۱۲صفحہ نمبر۵۲
[IMG]
مکمل تحریر اور تبصرے >>>