آم :گرمیوں کا سب سے مقبول پھل
جدید تحقیقات کے مطابق آم بریسٹ اور کولون کینسر میں موثر ثابت ہواہے
آم کے اندر پایا جانے والا کیمیکل عنصر پولی فینول کئی قسم کے کینسر اور ٹیومرمیں فائدہ مند ہے
تحریر:حکیم قاضی ایم اے خالد
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ آم گرمیوں کا سب سے مقبول پھل ہے اور دنیا بھر میں دوسرے پھلوں سے زیادہ کھایا جاتا ہے۔ آم میں نشاستہ پایا جاتا ہے اور روغنی اجزابھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔آم میں حیاتین اے 'سی' فاسفورس' کیلشیم'فولاد اور پوٹاشیم کے علاوہ گلوکوز بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ آم غذائیت بخش پھل ہے۔ یہ جسمانی کمزوری کو ختم کرتا ہے خون پیدا کرتا ہے اور جسم کو فربہ کرتا ہے۔ آم میں کیلشیم کی موجودگی ہڈیوں کیلئے مفید ہے۔ آم جگر'دل' دماغ'ہڈیوں اور پٹھوں کو سخت گرمی سے محفوظ رکھتا ہے۔ آم بچوں کو خصوصی طور پر کھلانا چاہئے۔ آم کھانسی اور دمہ کے مریضوں کیلئے بھی بہترین ہے یہ حافظے کو تقویت دیتا ہے اس لئے دماغی کمزوری والے لوگوں کوآم کا استعمال خاص طور پرکرنا چاہئے۔ آم کی مسواک دانتوں کی صفائی کیلئے مفید ہے۔آم میں موجود قدرتی اجزا دل کے امراض' کینسر اور جلدی بیماریوں سے حفاظت کا نہایت موثر ذریعہ ہیں۔ اس میں موجود فولاد جلد کی تروتازگی اور دلکشی میں اضافے کا باعث بنتا ہے جبکہ پوٹاشیم کی بڑی تعداد بلڈ پریشر کنٹرول کرتی ہے۔ گردے کی پتھری سے حفاظت کے لئے بھی آم کا استعمال نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔
حالیہ جدید تحقیقات کے مطابق آم بریسٹ اور کولون کے سرطان سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک اہم دوا ثابت ہوا ہے۔ آم کھانے کے شوقین لوگوں میں اس سرطان کی شرح نمایاں طور پر کم دیکھی گئی ہے۔ دنیائے طب میں آم اور صحت کے درمیان تعلق پر ہونے والی پہلی طبی تحقیق کرنے والی برلن کی معروف ڈاکٹر سواسانی ٹیل کوٹ اور ان کے شوہر ڈاکٹر سیٹوٹیل کوٹ نے آم کے گودے'جوس'چھلکے'گٹھلی کو کینسر کے خلاف قوت مدافعت فراہم کرتے ہوئے نوٹ کیا۔ انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ آم کھانے والے افراد کے خون میں زہریلے مادوں کی شرح صرف 10فیصد تک تھی جبکہ دیگرآم نہ کھانے والے لوگوں کے جسموں میں شرح 35سے 40فیصد تک نوٹ کی گئی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آم سپر فوڈ کہلا سکتا ہے۔ تحقیق کے دوران جسم سے زہریلے مادے اور کینسر کے سیل ختم کرنے کیلئے بلیوبیری' آم' پائن ایپل سمیت دیگر پھلوں پر تجربات کئے گئے جن میں سب سے زیادہ آم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق انگوروں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ سب سے بہتر خون صاف کرنے والا فروٹ ہے اور یہ ہے بھی درست مگر آم نے اس پر بھی سبقت حاصل کرلی ہے۔ ماہرین طب نے اس تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آم کو روزمرہ خوراک بنانے کیلئے زرعی سطح پر نئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آم کے اندر پائے جانے والے کیمیکل عنصر پولی فینول سے کولون' بریسٹ' پھیپھڑوں اور ہڈیوں کے گودے کے سرطان اور پروسٹیٹ کینسر کے ٹیومرز کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ عنصر عام طور پر پودوں میں پایا جاتا ہے مگر سب سے بہتر اور اعلی کوالٹی کا حاصل یہ عنصر آم میں ہی ملتا ہے۔
کچے آم (کیری )بھی صحت کیلئے بہت مفید ہیں ۔ کچے آم میں وٹا من بی ون اور بی ٹو پکے ہوئے آم کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نیا سین کی قابل ذکر مقدار بھی اس میں پائی جاتی ہے ۔ شد ید گرمی اور لوکے تھپیڑوں سے بچنے کیلئے کچے آم کو آگ میں بھون کر اس کا نرم گوداشکر اورپانی میں ملا کر شربت کے طور پر استعمال کرنے سے گرمی کے اثرات کم ہو جاتے ہیں کیری پر نمک لگا کر کھانے سے پیاس کی شدت کم ہو جاتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے جسم میں ہونیوالی نمک کی کمی بھی پوری ہو جاتی ہے کیری میں موجود وٹامن سی خون کی نالیوں کو زیادہ لچکدار بناتی ہے خون کے خلیات کی تشکیل میں بھی مدد گار ہوتی ہے غذا میں موجود آئرن کو جسم میں جذب کرنے میں بھی یہ وٹامن معاونت کرتی ہے اور جریان خون روکتی ہے کچے آم میں تپ دق' انیمیا اور پیچش سے بچا ؤکیلئے جسم کی مزاحمتی صلاحیت کو طاقتور بنانے کی قوت بھی پائی جاتی ہے کیری میں جو ترش تیزابی مادے ہوتے ہیں وہ صفرا کے اخراج کو بڑھا دیتے ہیں اور آنتوں کے زخموں کو مندمل کرنے میں اینٹی سیپٹک کے طور پر کام کرتے ہیں کھٹے کچے آم جگر کو صحت مند بناتے ہیں طبیب حضرات صفرادی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے کیری کی قاشوں کو شہد اور کالی مرچ کے ساتھ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں کچے آموں کو آنکھوں کی مرض اتوندیاشب کوری( جس میں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے) میں بھی مفید پایا گیا ہے
آم کے پتے' چھال'گوند'پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو' آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیںجب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیںپیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں'سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں' آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی' دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ' ارنڈ کے درخت کی چھال سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے اس لیے سیلان الرحم(لیکوریا) آنتوں اور رحم کی تکالیف 'پیچش و خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر دیا جاتا ہے۔ آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے اس لئے کثرت حیض' پرانی پیچش' اسہال' بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔
٭…٭…٭
حالیہ جدید تحقیقات کے مطابق آم بریسٹ اور کولون کے سرطان سے محفوظ رکھنے کیلئے ایک اہم دوا ثابت ہوا ہے۔ آم کھانے کے شوقین لوگوں میں اس سرطان کی شرح نمایاں طور پر کم دیکھی گئی ہے۔ دنیائے طب میں آم اور صحت کے درمیان تعلق پر ہونے والی پہلی طبی تحقیق کرنے والی برلن کی معروف ڈاکٹر سواسانی ٹیل کوٹ اور ان کے شوہر ڈاکٹر سیٹوٹیل کوٹ نے آم کے گودے'جوس'چھلکے'گٹھلی کو کینسر کے خلاف قوت مدافعت فراہم کرتے ہوئے نوٹ کیا۔ انہوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ آم کھانے والے افراد کے خون میں زہریلے مادوں کی شرح صرف 10فیصد تک تھی جبکہ دیگرآم نہ کھانے والے لوگوں کے جسموں میں شرح 35سے 40فیصد تک نوٹ کی گئی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آم سپر فوڈ کہلا سکتا ہے۔ تحقیق کے دوران جسم سے زہریلے مادے اور کینسر کے سیل ختم کرنے کیلئے بلیوبیری' آم' پائن ایپل سمیت دیگر پھلوں پر تجربات کئے گئے جن میں سب سے زیادہ آم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق انگوروں کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ سب سے بہتر خون صاف کرنے والا فروٹ ہے اور یہ ہے بھی درست مگر آم نے اس پر بھی سبقت حاصل کرلی ہے۔ ماہرین طب نے اس تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آم کو روزمرہ خوراک بنانے کیلئے زرعی سطح پر نئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آم کے اندر پائے جانے والے کیمیکل عنصر پولی فینول سے کولون' بریسٹ' پھیپھڑوں اور ہڈیوں کے گودے کے سرطان اور پروسٹیٹ کینسر کے ٹیومرز کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ عنصر عام طور پر پودوں میں پایا جاتا ہے مگر سب سے بہتر اور اعلی کوالٹی کا حاصل یہ عنصر آم میں ہی ملتا ہے۔
کچے آم (کیری )بھی صحت کیلئے بہت مفید ہیں ۔ کچے آم میں وٹا من بی ون اور بی ٹو پکے ہوئے آم کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نیا سین کی قابل ذکر مقدار بھی اس میں پائی جاتی ہے ۔ شد ید گرمی اور لوکے تھپیڑوں سے بچنے کیلئے کچے آم کو آگ میں بھون کر اس کا نرم گوداشکر اورپانی میں ملا کر شربت کے طور پر استعمال کرنے سے گرمی کے اثرات کم ہو جاتے ہیں کیری پر نمک لگا کر کھانے سے پیاس کی شدت کم ہو جاتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے جسم میں ہونیوالی نمک کی کمی بھی پوری ہو جاتی ہے کیری میں موجود وٹامن سی خون کی نالیوں کو زیادہ لچکدار بناتی ہے خون کے خلیات کی تشکیل میں بھی مدد گار ہوتی ہے غذا میں موجود آئرن کو جسم میں جذب کرنے میں بھی یہ وٹامن معاونت کرتی ہے اور جریان خون روکتی ہے کچے آم میں تپ دق' انیمیا اور پیچش سے بچا ؤکیلئے جسم کی مزاحمتی صلاحیت کو طاقتور بنانے کی قوت بھی پائی جاتی ہے کیری میں جو ترش تیزابی مادے ہوتے ہیں وہ صفرا کے اخراج کو بڑھا دیتے ہیں اور آنتوں کے زخموں کو مندمل کرنے میں اینٹی سیپٹک کے طور پر کام کرتے ہیں کھٹے کچے آم جگر کو صحت مند بناتے ہیں طبیب حضرات صفرادی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے کیری کی قاشوں کو شہد اور کالی مرچ کے ساتھ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں کچے آموں کو آنکھوں کی مرض اتوندیاشب کوری( جس میں رات کے وقت دیکھنے میں دشواری ہوتی ہے) میں بھی مفید پایا گیا ہے
آم کے پتے' چھال'گوند'پھل اور تخم سب دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج کے مقام پر لگانے سے بالچر کو فائدہ ہوگا۔ آم کے درخت کی پتلی ڈالی کی لکڑی سے روزانہ مسواک کرنے سے منہ کی بدبو جاتی رہے گی۔ خشک آم کے بور کا سفوف روزانہ نہار منہ چینی کے ساتھ استعمال کرنا مرض جریان میں مفید ہے۔جن لوگوں کو پیشاب رکنے کی شکایت ہو' آم کی جڑ کا چھلکا برگ شیشم دس دس گرام ایک کلو پانی میں جوش دیںجب پانی تیسرا حصہ رہ جائے تو ٹھنڈا کرکے چینی ملا کر پی لیںپیشاب کھل کر آئے گا۔ ذیابیطس کے مرض میں آم کے پتے جو خود بخود جھڑ کرگر جائیں'سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ صبح و شام دو دو گرام پانی سے استعمال کرنے سے چند دنوں میں فائدہ ہوتا ہے۔ نکسیر کی صورت میں آم کے پھولوں کو سائے میں خشک کرکے سفوف بنا لیں اور بطور نسوار ناک میں لینے سے خون بند ہو جاتا ہے۔ جن لوگوں کے بال سفید ہوں' آم کے پتے اور شاخیں خشک کرکے سفوف بنا لیں۔ روزانہ تین گرام یہ سفوف استعمال کیا کریں۔ کھانسی' دمہ اور سینے کے امراض میں مبتلا لوگ آم کے نرم تازہ پتوں کا جوشاندہ' ارنڈ کے درخت کی چھال سیاہ زیرے کے سفوف کے ساتھ استعمال کریں۔ آم کی چھال قابض ہوتی ہے اور اندرونی جھلیوں پر نمایاں اثر کرتی ہے اس لیے سیلان الرحم(لیکوریا) آنتوں اور رحم کی تکالیف 'پیچش و خونی بواسیر کیلئے بہترین دوا خیال کی جاتی ہے۔ ان امراض میں آم کے درخت کی چھال کا سفوف یا تازہ چھال کا رس نکال کر دیا جاتا ہے۔ آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں بکثرت گیلک ایسڈ ہوتا ہے اس لئے کثرت حیض' پرانی پیچش' اسہال' بوا سیر اور لیکوریا میں مفید ہے۔
٭…٭…٭
آم کی مختلف اقسام
یوں تو آم کی بے شمار اقسام سامنے آچکی ہیں مگر پاکستان میں بکثرت پیدا ہونے والی اقسام درج ذیل ہیں۔
دسہری
اس کی شکل لمبوتری'چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا باریک اور گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا گہرا زرد'نرم'ذائقے دار اور شیریں ہوتا ہے۔
چونسا
یہ آم قدرے لمبا'چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد'نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری'سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت)کے قریبی قصبہ چونسا سے ہوئی۔
انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ' چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ'ٹھوس' سرخی مائل زرد' نہایت شیریں' خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی'بیضوی اور نرم'ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت)کے قریب قصبہ رٹول سے ہوئی۔
لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد'ملائم' شیریں'رس دار ہوتا ہے۔
الماس
اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ'چھلکا زردی مائل سرخ'گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم' شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔
فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل سطح برائے نام کھردری 'چھلکا موٹا اور نفیس' گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل سرخ' خوش ذائقہ'رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔
سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا'چھلکا زرد' چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں' رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔
گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ'چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔
مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔
سہارنی
سائز درمیانہ اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔
فضل دین یا فضلی
یہ بہت بڑے بڑے سائز کاآم ہوتا ڈیڑھ سے دوکلو تک کے وزن کا بھی دیکھا گیا ہے۔بیرونی چھلکا سبز رنگ کا اور اندرونی گودا پیلا 'شیریں ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
چونسا
یہ آم قدرے لمبا'چھلکا درمیانی موٹائی والا ملائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد'نہایت خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی پتلی لمبوتری'سائز بڑا اور ریشہ کم ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا ملیح آباد (بھارت)کے قریبی قصبہ چونسا سے ہوئی۔
انور رٹول
اس کی شکل بیضہ نما ہوتی ہے اور سائز درمیانہ ہوتا ہے۔ چھلکا درمیانہ' چکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔ گودا بے ریشہ'ٹھوس' سرخی مائل زرد' نہایت شیریں' خوشبودار اور رس درمیانہ ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی درمیانی'بیضوی اور نرم'ریشے سے ڈھکی ہوتی ہے۔ اس قسم کی ابتدا میرٹھ (بھارت)کے قریب قصبہ رٹول سے ہوئی۔
لنگڑا
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا چھلکا چکنا بے حد پتلا اور نفیس گودے کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا سرخی مائل زرد'ملائم' شیریں'رس دار ہوتا ہے۔
الماس
اس کی شکل گول بیضوی ہوتی ہے اور سائز درمیانہ'چھلکا زردی مائل سرخ'گودا خوبانی کے رنگ جیسا ملائم' شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔
فجری
یہ آم بیضوی لمبوترا ہوتا ہے۔ فجری کا چھلکا زردی مائل سطح برائے نام کھردری 'چھلکا موٹا اور نفیس' گودے کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ گودا زردی مائل سرخ' خوش ذائقہ'رس دار اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ اس کی گٹھلی لمبوتری موٹی اور ریشے دار ہوتی ہے۔
سندھڑی
آم بیضوی اور لمبوترا ہوتا ہے۔ اس کا سائز بڑا'چھلکا زرد' چکنا باریک گودے کیساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ گودا شریں' رس دار اور گٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اصلاًمدراس کا آم ہے۔
گولا
یہ شکل میں گول ہوتا ہے۔ سائز درمیانہ'چھلکا گہرا نارنجی اور پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔ گٹھلی بڑی ہوتی ہے۔
مالدا
یہ آم سائز میں بہت بڑا ہوتا ہے مگر گٹھلی انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔ چھلکا پیلا اور پتلا ہوتا ہے۔
نیلم
اس آم کا سائز درمیانہ اور چھلکا درمیانہ، موٹا اور پیلے رنگ کا چمکتا ہوا ہوتا ہے۔
سہارنی
سائز درمیانہ اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے۔
فضل دین یا فضلی
یہ بہت بڑے بڑے سائز کاآم ہوتا ڈیڑھ سے دوکلو تک کے وزن کا بھی دیکھا گیا ہے۔بیرونی چھلکا سبز رنگ کا اور اندرونی گودا پیلا 'شیریں ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔